Mobile is destructive like missile for character
ايک عظيم بلا، جو اس وقت پورے معاشرے پر مسلط ہے، اور مدرسوں کو تو کھا رہي ہے، وہ ہے يہ کيمرے والا موبائل۔ يہ ايک بلا ہے، ايک مصيبت ہے، اور افسوس ہے کہ پورے معاشرے کو کھاگئي ہے۔ اور بڑے سے بڑا عالم، بظاہر متقي، بظاہر نمازوں کے پابند، ليکن اس کے پاس يہ موبائل جو ہے، جس کو آج کل اسمارٹ موبائل کہتے ہيں، سمارٹ کيا ہوتا، وہ تو تباہ کن موبائل ہے، مزايل ہےوہ، موبائل نہيں، وہ مزايل (missile) ہے۔ وہ انسان کے اخلاق کو تباہ کرنے والا، انسان کے دين کو تباہ کرنے والا، انسان کے اوقات کو تباہ کرنے والا مزايل ہے وہ۔
تو اس کے اوپر ہم نے يہاں پابندي لگائي، اور اسي ليے لگائي ہے کہ اس ميں دو بڑے عظيم نقصان ہيں، ذرا يہ بات اچھي طرح کان کھول کر، ہمہ تن گوش ہو کر سن لو ۔اس ميں دو عظيم نقصان ہيں۔
ايک عظيم نقصان تو يہ ہے کہ موبائل کا استعمال کرنا موبائل کي جو سوشل ميڈيا ہے اس کو استعمال کرنا بڑے سے بڑے متقي کے ليے يہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے استعمال ميں وہ کسي گناہ ميں مبتلا نہيں ہوگا۔
نيک نيتي سے اس نے کہا جي فلاں بزرگ کي تقرير سن لو ں ذرا۔ اور اس نے کھول ليا، اس کے کسي اختيار کے بغير ايسي چيزيں سامنے آجائيں گي کہ شيطان کو ڈسنے کا فوراً موقع مل جائے گا۔ بڑے سے بڑا متقي ، صاحب نسبت بھي، اگر وہ استعمال کرے گا تو شايد گناہ ميں مبتلا ہو جائے ۔ اور ايک گناہ دوسرے گناہ کو کھينچتا ہے۔ ايک چھوٹا سا گناہ ہو گيا، ايک تصوير آ گئي اس ميں ديکھنے سے مزہ آ گيا تو بھئي يہ تو آ ہي گئي تو اس کو تھوڑا سا آگے بڑھا کے ديکھو۔
شيطان اس طرح انسان کو رفتہ رفتہ ايک گناہ سے دوسرے گناہ دوسرے سے تيسرے گناہ، تيسرے سے چوتھے گناہ ميں مبتلا کرتا جاتا ہے۔
تو اسي ليے ميں کہتا ہوں کہ ہاتھوں ميں مزايل ہے۔
اور يہ اصول سارے عالم علمي دنيا ميں مسلم ہے کہ دفع مضرت مقدم ہے جلب منفعت پر۔
آپ کہتے ہو کہ بھئي اس موبائل سے تو ہميں بہت مواعظ سننے کو ملتے ہيں۔ہميں بزرگوں کي ہدايات اور نصيحتيں سننے کو ملتي ہيں اس ميں ہم ايسے پيغامات کا تبادلہ کرتے ہيں جو ايک دوسرے کے لئے فائدہ مند ہوتے ہيں۔
کہتا ہوں ميں يہ جلب منفعت ہے، اورنگاہ کا بہک کر کسي غلط جگہ پر چلا جانا يہ مضرت کبري ہے ، تو دفع مضرت مقدم ہے جلب منفعت پر۔
لہذا ايک بات تو يہ ہے کہ يہ عام آدميوں کے ليے بھي خطرناک ہے۔ ليکن دوسري وجہ يہ ہے کہ اس بات کا تجربہ ہے، مشاہدہ ہے، اس ميں کوئي ادنيٰ شک و شبہ کي گنجائش نہيں ہے کہ اوقات ضائع کرنے کا اس وقت اس سے بڑا کوئي اور راستہ نہيں ہے۔
اگر طالب علم ہے تو اس کا وقت اتنا قيمتي ہے کہ اس کا ہرہر لمحہ طلب علم ميں صرف ہونا چاہيے، مطالعہ ميں صرف ہونا چاہيے، تکرار ميں صرف ہونا چاہيے، اگر اس کو کوئي مسئلہ سمجھ ميں نہيں آيا تو اس کو چين نہيں آنا چاہيے اس وقت تک جب تک وہ سمجھ ميں نہ آ جائے۔
چاہے وہ طالب علم ہو چاہے استاد ہو اس کا تو ايک ايک وقت قيمتي ہے ايک ايک لمحہ قيمتي ہے يہاں تک کہ ہمارے بزرگوں نے يہ فرمايا تھا کہ طالب علم کو مغرب کے بعد اوابين بھي نہيں پڑھني چاہيے، صرف دو سنت پڑھے، اور اپنے مطالعہ ميں لگ جائے۔
يہ تلقين ہوتي تھي ہمارے اکابر کي طرف سے، نوافل تمھارے ليے اتنے اہم نہيں ہيں تمھاري کتاب تمھارا مطالعہ تمھارا تکرار زيادہ اہم ہے ۔ اپنے اوقات کو اس ميں صرف کرو۔ تو طالب علم کا وقت اس کا ايک ايک لمحہ قيمتي ہے اس کو اگر پڑھنا ہے تو اپنے اوقات کوصحيح کام ميں لگانا ہے اور يہ جو موبائل ہے وہ تمھارے اوقات کو ضائع کرنے والا ہے ،تجربہ ہے اس ميں کوئي ادني شبہ و شک نہيں ہے کہ يہ اوقات کو ضائع کرنے والي ايک بہت بڑي وبا اور مصيبت ہے جو ہمارے اوپر نازل ہوگئي ہے۔
اس ليے ہم آپ کو منع کيا کرتے ہيں کہ اگر طالب علم ہو تو اپنے اوقات طلب علم ميں صرف کرو، اپنے دين کو اخلاق کو درست کرنے ميں صرف کرو۔ موبائل ميں صرف کروگے تو نہ دنيا ملے گي اور نہ دين ملے گا۔ خسر الدنيا والآخرہ۔
اس ليے يہاں پر يہ پابندي ہے اور آپ کو اس پابندي کا لحاظ رکھنا ہے، اگر يہ ضوابط آپ کو منظور نہيں ہے يا آپ کا دل مطمئن نہيں ہوتا ان ضوابط پر، تو پھر براہ کرم کوئي اور راستہ اختيار کر ليں، يہاں سے اپنے آپ کو کہيں اور لے جائيں، ليکن يہاں رہنا ہے اور طالب علم بن کر رہنا ہے تو ان ضوابط کي پابندي کرني ہے۔
اقتباس از بيان افتتاحي مجلس، جامعہ دار العلوم کراچي
۲۲ شوال ۱۴۴۴ھ
۱۳مئي ۲۰۲۳ء