ابن مخلص - نواپارا، نواکھالی
প্রশ্ন
تفسیر جلالین (ص ১৯২) میں سورۂ یوسف کے ২৪ نمبر آیت کریمہ کی تفسیر یوں کی گئی ہے:{وَلَقَدْ هَمَّتْ بِه} (قصدتْ منه الجماع) {وَهَمَّ بِهَا} (قصد ذلك) {لَوْلا أَنْ رَآى بُرْهَانَ رَبِّه} (قال ابن عباس: مُثِّل له يعقوبُ فضرب صدره، فخرجتْ شهوته من أنامله، وجواب لولا: لجامعها).
سوال یہ ہے کہ کیا یہ تفسیر صحیح ہے؟ اور اس میں حضرت عبد اللہ بن عباس کے حوالے سے جو بات نقل کی گئی ہے کیا وہ ان سے ثابت ہے؟
উত্তর
ماشاء اللہ آپ نے بہت اہم سوال کیا ہے، کوئی شک نہیں کہ یہ ان نازک مواقع میں سے ہے جس میں جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے تسامح ہوگیا، سامحه الله تعالى وجزاه على خدماته أحسن الجزاء.
پہلا تسامح تو یہ ہے کہ انہوں نے >هَمَّ< کی تفسیر >قصد< سے کی ہے، حالانکہ بلاغت کے قاعدے کے مطابق یہاں >هَمَّ< کا لفظ علی سبیل المشاکلۃ آیا ہے، اس لیے دونوں جگہ معنی ایک نہیں ہوگا، اس لیے دوسری جگہ >هَمَّ< کا معنی >قصد< نہیں بلکہ یہاں هَمَّ کا معنی ہے بتقاضائے طبیعت دل میں صرف خطرہ گذرنا، مگر اللہ تعالی نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو اس سے بھی محفوظ رکھا ہے، اللہ تعالی کی طرف سے برہان دیکھنے کی وجہ سےادنی درجہ کے اس هَمَّ سے بھی وہ محفوظ رہ گئے، جیسا کہ ارشاد ہوا: {وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَنْ رَآى بُرْهَانَ رَبِّه} ملاحظہ ہو: تفسیر جمل، تفیسر صاوی، اور فتوح الغیب علامہ طیبی ২৯৫/৮، مجموع الفتاوی، ابن تیمیہ ৭৪০/১০۔
دوسرا تسامح یہ ہے کہ انہوں نے >لولا< کے جواب کو محذوف قرار دے کر ان کے زعم کے مطابق اس محذوف کا ذکر بھی کیا ہے!! حالانکہ رب العالمین نے تو امرأۃ العزیز کے گناہ کا تذکرہ کنایۃً فرمایا، اور مصنف سیدنا یوسف علیہ السلام کی عصمت پر مشتمل آیت کی تفسیر میں ایسی صریح عبارت ذکر کررہے ہیں؟!
بہر حال اس تسامح کا ایک منشأ تو یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق بعض منکر اسرائیلی روایات کو ان لوگوں نے آثار سمجھ کر نادانستہ بد گمانی میں مبتلا ہوئے، دوسرا منشأ یہ ہے کہ متاخرین میں دائر سائر کتب نحو میں ذکر کردہ قاعدے کے مطابق >لولا< کا جواب مقدم نہیں ہوا کرتا، اس لیے وہ >وَهَمَّ بِهَا< کو>لَوْلَا< کا جواب قرار دینے کے لیے تیار نہیں، بعض اور مفسرین نے بھی یہی کام کیا ہے، حالانکہ >لولا< کا جواب مقدم ہونا یہ بھی عربیت کا ایک فصیح اسلوب ہے جسے بتقاضائے مقتضی الحال جہاں اختیار کرنا چاہیے اختیار کرنا ہی عین بلاغت ہے۔
بہرحال سوال یہ ہے کہ اگر >لولا< کا جواب محذوف ہی ہو تو کیا وہ محذوف یہی ہے جس کا ذکر مصنف نے کیا ہے؟! محذوف تو وہی ہوتا جس پر سیاق دال ہو، یہاں تو ظاہری سیاق وسباق اور معنوی سیاق وسباق اس پر دال ہےکہ یہاں جواب محذوف >هَمَّ< ہے، يدل عليه ما قبله.
ملاحظہ ہو: مفسر ابو حیان (৭৪৫ھ) رحمۃ اللہ علیہ کا نورانی ارشاد، ان کا محققانہ اور ایمان افروز بیان “البحر المحیط” ৩৮৪-৩৮৩/৫ میں، جس کا تھوڑاسا حصہ 'الطریق الی تفسیر القرآن الکریم' ২০০/২ میں نقل کیا گیا، مزید ملاحظہ ہو حضرت پالنپوری کی شاندار تفسیر “ھدایت القرآن” ১৬৪-১৬৩/৪۔
آپ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی طرف منسوب بات کے بارے میں بھی پوچھا ہے، جواب یہ ہے کہ بعض روایت میں اگرچہ یہ بات سیدنا ابن عباس کی طرف منسوب ہے لیکن راجح روایات کے مطابق مذکورہ مقولہ سعید بن جبیر کا بیان ہے، ملاحظہ ہو تفسیر عبد الرزاق اور تفسیر الطبری میں مذکور متعلقہ روایات۔
لیکن اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کسی بھی روایت کے مطابق یہ مقولہ 'أثر' کی حیثیت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ یہ اسرائیلیات سے حکایت کردہ ہے، اس سے بھی زیادہ منکر وہ اسرائیلی روایات ہیں جو 'الدر المنثور' میں منقول ہیں۔ افسوس کہ وہ بعض خطبات ومواعظ میں بھی نقل ہوتی آئی ہیں!! بس کسی صحابی یا تابعی کا نام دیکھ کر انھیں آثار اور اقوال سلف سمجھ لیا گیا، حالانکہ ان میں سے بعض قائل سے ثابت ہی نہیں، اور بعض ایسی ہے جسے قائل نے اسرائیلیات سے حکایت کردی ہے!!
ان اسرائیلیات کی طرف اشارہ کرکے امام ابو حیان رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:
>طوَّل المفسرون (أي طائفة منهم) في تفسير هذين الهمَّين، ونَسَب بعضُهم ليوسف ما لا يجوز نسبتُه لآحاد الفساق، ...، وأما (ما زعم ابن عطية من) أقوال السلف (في ذلك) فنعتقد أنه لا يصح عن أحد منهم شيء من ذلك (قولاً لهم)، لأنها أقوال متكاذبة يناقض بعضها بعضاً، مع كونها قادحة في بعض فساق المسلمين، فضلا عن المقطوع لهم بالعصمة...، وقد طهَّرنا كتابنا هذا عن نقل ما في كتب التفسير (من أمثال ذلك) مما لا يليق ذكره، واقتصرنا على ما دلَّ عليه لسان العرب، ومساق الآيات التي في هذه السورة مما يدل على العصمة وبراءة يوسف عليه السلام من كل ما يشين<. (البحر المحيط ৩৮৩-৩৮৪ :৫).
مزید دیکھیں تفسیر ابی السعود ৩৮১/৩، روح المعانی ২১৫/৭، الإسرائيليات والموضوعات في كتب التفسير للدكتور محمد أبو شہبۃ ص ২২২-২২১ (وجزاه الله تعالى خيرا على شدة غيرتہ)، اورمجموع الفتاوی ابن تیمیہ ১৭/ ৩০-৩১ (فقد نصَّ على كون هذه الأقوال إسرائيلياتٍ، وأنها مخالفة لبيان القرآن الكريم).